وقت
بس اور گھڑی دو گھڑی سہی
پھر وقت کے پیالے سے گرتی
ہستی کی ریت کو
پیالہ خالی کرنا ہے
ہر بازی وقت کی بازی تھی
ہر بازی پر شہہ مات ہوئی
اب دامن جھاڑ کے اٹھیں گے
ساری محنت برباد ہوئی
خوشنودیٔ وقت کی خاطر ہم
بس کیا کیا بار اٹھاتے ہیں
ہم آس کی شبنم بوتے ہیں
اور یاس کے صحرا پاتے ہیں
ظاہر میں تو ہمت اوڑھے ہیں
اور اندر ٹوٹتے جاتے ہیں
یہ علم کی طاقت
دل کی صداقت
قلم کی ہمت
اپنے لیے سب نا سمجھی کی باتیں ہیں
یہ جاہ و حشم بھی ان کے ہیں
جو شادابی کے پالے ہیں
اپنی تو ہمت صرف ہوئی
ساری محنت برباد ہوئی
جو دل کے تہوں میں ٹوٹ گیا
جو اندر اندر بیت گئی
اس کاہش جاں کا ذکر ہی کیا
اب مٹھی ریت کی بازی ہے
سو کون سی ایسی بازی ہے
اب ہار اور جیت کی فکر ہی کیا
سب جان لیا سب دیکھ لیا
جب سب رستے بے منزل ہیں
جب سب لمحے پتھر دل ہیں
جب سوچیں سب لا حاصل ہیں
پھر کیا سوچیں پھر کیوں سوچیں
لو ہم خود اپنی مٹھی سے یہ ریت گرائے دیتے ہیں
یا ٹھہر کے سمجھے وقت ہمیں
یا ہم ٹھہرائے دیتے ہیں