وہم سے یا گماں سے اٹھتی ہے
وہم سے یا گماں سے اٹھتی ہے
یا کہیں درمیاں سے اٹھتی ہے
وہ تمنا کہ جس پہ جیتے ہیں
کیا بتائیں کہاں سے اٹھتی ہے
غم کدہ ہے یہ میرؔ صاحب کا
ایک تابانی یاں سے اٹھتی ہے
کیا سماوات میں تلاطم ہے
کیا فغاں جسم و جاں سے اٹھتی ہے
موج جب تہ نشین ہوتی ہے
لہر آب رواں سے اٹھتی ہے
لا مکانی مکاں سے بہتر ہے
یہ زمین و زماں سے اٹھتی ہے
دیدہ بازی بھی عشق بازی ہے
دل کی یہ بات جاں سے اٹھتی ہے
جب اٹھائے نہ اٹھ سکے یہ زمیں
پھر زمیں آسماں سے اٹھتی ہے
اب تو کنج بتاں سے رخصت ہے
عاشقی آستاں سے اٹھتی ہے