مری شکست نے مجھ کو بہت توانا کیا
مری شکست نے مجھ کو بہت توانا کیا
زمین بوس ہوا اور فلک نشانہ کیا
سواد لفظ پہ معنی کا پیرہن رکھا
اٹھایا شعر فضا میں اسے ترانہ کیا
طریق و طور رکھا عشق میں عجیب و غریب
رقیب سے بھی مراسم کو محرمانہ کیا
ہمیں تھے جو کہ مکاں در مکاں مکیں نہ ہوئے
پہ طائروں نے جہاں چاہا آشیانہ کیا
وہ کون زمزمہ پیرا ہوا تھا آخر شب
یہ کس نے آخر شب رقص دلبرانہ کیا
یہ میری قدر و قضا ہے کہ سر بلند رہا
اگرچہ جو بھی کیا میں نے باغیانہ کیا
ہمارا ملجا و ماویٰ ہی کیا کہ عرض کریں
تمہارے دست کرم نے اسے خزانہ کیا
یہ ہست و بود کا جب سلسلہ تمام ہوا
تمام ارض و سما پھر سے زر فشانہ کیا
یقین ہے کہ ہوا ہوگا کیسے شق قمر
یقیں ہے ان نے عجب کار منصفانہ کیا
وہ عرش و فرش پہ ظاہر نہیں کہ باطن ہیں
جو ان سے عشق کیا ہم نے غائبانہ کیا
انیسؔ عشق کرو ہاں زمیں سے عشق کرو
ابھی تلک جو کیا تم نے آمرانہ کیا