رات کالی نہیں تو کیا ہوگی

رات کالی نہیں تو کیا ہوگی
پائمالی نہیں تو کیا ہوگی


شعر گویوں کی فطرت سادہ
لاابالی نہیں تو کیا ہوگی


اس کی زنبیل اور مری زنبیل
میری خالی نہیں تو کیا ہوگی


لحن اک اور وہ بھی وقت صبح
وہ بلالی نہیں تو کیا ہوگی


اچھے انسانوں کی طبیعت بھی
گر سفالی نہیں تو کیا ہوگی


شام کے سائے ہیں زوال پذیر
شب زوالی نہیں تو کیا ہوگی


ماہ رو ماہ رو سے ملتے ہیں
لب پہ لالی نہیں تو کیا ہوگی


خواجۂ میر دردؔ کی ہر بات
گر مثالی نہیں تو کیا ہوگی