قریب تم تھے شکایت تمہیں سے ہونا تھی

قریب تم تھے شکایت تمہیں سے ہونا تھی
اے شہر درد محبت تمہیں سے ہونا تھی


تمہاری جنگ اسی سرزمیں سے ہونا تھی
ہزار حیف مری گل زمیں سے ہونا تھی


وہ ایک قطرہ کہ جو آبگین صورت تھا
ہماری بات اسی آبگیں سے ہونا تھی


یہ نعمتیں مرے خوانوں کی کس طرح اتریں
کہ میری بات تو نان جویں سے ہونا تھی


گمان و وہم کے پہلو میں کیوں رہے زندہ
یہ گفتگو مری روح الامیں سے ہونا تھی


کریں جو آہ تو کیونکر کریں کہ آخر کار
وہ ابتدا تو کہیں نا کہیں سے ہونا تھی


نہ آب و دانہ کا شکوہ نہ شکوۂ شب و روز
پر ایک جنگ تو مسند نشیں سے ہونا تھی


وصال و ہجر بھی اس کی عطا اسی کا کرم
اسی کی بات اسی دل نشیں سے ہونا تھی