اٹھ کر اس کے در سے اپنے گھر جانا
اٹھ کر اس کے در سے اپنے گھر جانا
ہائے کتنا آساں ہوتا مر جانا
جس رستے ہر پتھر تک سے یاری تھی
مشکل ہے اب اس رستے اکثر جانا
دل شاہد ہے ان چارہ گر نظروں کا
ان کا اٹھنا ان گھاؤں کا بھر جانا
عشق کیا تو جانا کیوں ہوتا ہے یہ
ہونٹوں کا مسکانا آنکھیں بھر جانا
مرنے کی فرصت ملنے تک ہے ہم کو
ہر صبح زندہ ہو کر دفتر جانا