ادیبوں سے مقرر کی طلب ہے

ادیبوں سے مقرر کی طلب ہے
ذرا سی اس سخنور کی طلب ہے


اسے بھی ہو طلب میری نظر کی
مجھے اس ایک منظر کی طلب ہے


ہتھوڑے چھینیوں کو جھیل کر بھی
خدا ہو جائے پتھر کی طلب ہے


رکھے کوئی مرے گھاؤ پہ مرہم
قبا کو بھی رفوگر کی طلب ہے


نہیں چلنا مجھے منزل کی جانب
تھکا ہوں نرم بستر کی طلب ہے


لگی اس اور بھی کمتر نہیں ہے
ادھر بھی تو برابر کی طلب ہے


پیا ہے زہر بس دنیا کی خاطر
وگرنہ کب یہ شنکر کی طلب ہے


ابھی کچھ خون باقی ہے جگر میں
ابھی کچھ اور نشتر کی طلب ہے