کچھ بیاں کر دی حقیقت کچھ چھپائی ساتھ میں

کچھ بیاں کر دی حقیقت کچھ چھپائی ساتھ میں
شاعری اور نوکری دونوں نبھائی ساتھ میں


میں اسی دن سے سخنور نام سے جانا گیا
اک غزل اس نے بھی میری گنگنائی ساتھ میں


ایک دوجے کی نظر کا سامنا نہ کر سکے
سامنے آئے تو پھر نظریں جھکائی ساتھ میں


دیکھنا سوکھی ہوئی کلیاں کتابوں میں چھپی
اور پھر کرنی پڑی ہم کو پڑھائی ساتھ میں


وہ ہتھیلی خواب میں میری ہتھیلی میں رہی
رات بھر آتی رہی خوشبو حنائی ساتھ میں