ازل سے اپنے ہی ہونے کے انتظار میں ہوں
ازل سے اپنے ہی ہونے کے انتظار میں ہوں
نمو پزیر ہوں لیکن ترے حصار میں ہوں
کہاں پتا تھا کہ اپنا ہی پیش و پس ہوں میں
کسے خبر تھی کہ تنہا کھڑا قطار میں ہوں
ترے وجود کی ہر دھوپ چھاؤں ہے جس میں
میں ریزہ ریزہ اسی خاک رہ گزار میں ہوں
یہیں کہیں تری نظروں سے گر کے بکھروں گا
میں شاخ سبز ابھی موسم بہار میں ہوں
صدائے قبر ادھر بھی کوئی کہ تیرے لئے
میں پا بجولاں بہت دشت بے کنار میں ہوں
فرار چاہوں تو جو کچھ ہے سب گنوا بیٹھوں
کچھ اس طرح تری آواز کے حصار میں ہوں
بتا گیا تھا پتا بس یوں ہی ہواؤں کو
کہاں خبر تھی کہ میں بھی ترے شمار میں ہوں
الگ نہ دیکھ بہت زرد زرد پھولوں سے
نظر اٹھا کہ میں چاروں طرف بہار میں ہوں
میں حرف حرف تجھے جسم و جاں میں لے جاؤں
کہ رنگ رنگ تری لوٹتی بہار میں ہوں
بکھر چکا ہے وہ اجملؔ صدائیں دے کے مجھے
کہ میں اسیر ہواؤں کے کار زار میں ہوں