اس کو تنہائی میں سوچوں تو مچل جاتا ہے

اس کو تنہائی میں سوچوں تو مچل جاتا ہے
دل مرا کیسا ہے جو سوچوں سے جل جاتا ہے


میری تنہائی سنا دے جو مجھے میری غزل
میرا پیکر تری تصویر میں ڈھل جاتا ہے


رعب خاموشی ہے یا اس میں ہے پوشیدہ جلال
غم صدا دے کے ہی چپ چاپ نکل جاتا ہے


میری خاموشی مجھے دیتی ہے قوت تب ہی
ٹھوکریں کھا کے مرا دل جو سنبھل جاتا ہے


یوں تو بجتے ہیں کئی ساز تخیل میں مرے
دل مگر نغمۂ جاں سن کے بہل جاتا ہے


کون کہتا ہے کہ بازار وفا میں دل کا
سکہ جیسا بھی ہو جیسا بھی ہو چل جاتا ہے


اس کو دیکھا ہی نہیں ٹھیک سے فہمیؔ لیکن
نام پر اس کے یہ دل وحشی مچل جاتا ہے