خواب آنکھوں کے یہ بے جان کہاں ہوتے ہیں

خواب آنکھوں کے یہ بے جان کہاں ہوتے ہیں
راستے صبر کے آسان کہاں ہوتے ہیں


جو گئے آپ تو تنہائی یہاں رہنے لگی
کہ نگر دل کے یہ ویران کہاں ہوتے ہیں


کوئی مر جائے سسکتا رہے دم بھرتا رہے
ہنسنے والے یہ پریشان کہاں ہوتے ہیں


درد تو شور مچاتا ہے اکیلے من میں
دل کے دالان بھی سنسان کہاں ہوتے ہیں


کوئی قاتل بھی اگر تخت پہ قبضہ کر لے
لوگ کم ظرف یہ حیران کہاں ہوتے ہیں


ناخداؤں نے سنبھالی ہے یہ دنیا جب سے
ڈھونڈھتی پھرتی ہوں بھگوان کہاں ہوتے ہیں


چلتی پھرتی ہوئی بے جان مشینیں ہیں یہ سب
وہ جو انسان تھے انسان کہاں ہوتے ہیں


یہ بجز دوستوں کے اور عطا کس کی ہے
ناتواں ورنہ یہ پیمان کہاں ہوتے ہیں


غم کی شدت مجھے رونے نہیں دیتی کیونکہ
رنج و غم درد کے احسان کہاں ہوتے ہیں


دل کو سمجھا لیا کہتے ہوئے فہمیؔ اتنا
پورے ہو جائیں وہ ارمان کہاں ہوتے ہیں