اب تو آ جا مری پلکیں ہیں یہ پیاسی کب سے

اب تو آ جا مری پلکیں ہیں یہ پیاسی کب سے
فرش رہ بیٹھی ہے آ دیکھ اداسی کب سے


مجھ کو بھی اچھا نہیں لگتا سنورنا لیکن
ترک تو نے کیا یہ ذوق لباسی کب سے


گھر میں رشتوں کی کڑی ٹوٹ گئی ہو جیسے
گھر میں رہنے لگی اک بات ذرا سی کب سے


بانٹتا پھرتا ہے در در تو محبت سب کو
گھر میں بیٹھی ہے ادھر دیکھ پیاسی کب سے


دل لبھاتی رہی اک عمر یہ دنیا لیکن
منتظر پھول رہے گھر میں یہ باسی کب سے


یاد آتی ہی نہیں تجھ کو مجھے حیرت ہے
منتظر ہے کسی دہلیز پہ ماں سی کب سے


بال پھیلائے ہوئے پھرتی ہے نفرت ہائے
ہو چکی فہمیؔ محبت کی خلاصی کب سے