جو تری شرط پہ بھٹی سے پگھل کر نکلے
جو تری شرط پہ بھٹی سے پگھل کر نکلے
ہم وہ شاعر ہیں جو احساس میں ڈھل کر نکلے
کتنا مسرور تھا وہ اس کو نہیں تھا معلوم
ہم کیوں آواز پہ یوں ہاتھوں کو مل کر نکلے
ہم وہی لوگ ہیں جو سن کے صدائے ہجرت
اپنے قدموں میں سفر اپنا کچل کر نکلے
یہ مرے لفظ مری سوچ کے جوہر یہ تو
منجمد بحر گراں سے یہ ابل کر نکلے
حال پوچھے نہ کوئی ہم سے خرابوں کا جو بس
گھر سے نکلے تو مقدر کو بدل کر نکلے
ایسے انسانوں کو میں نام دوں کیا تو ہی بتا
گلشن دل سے جو کلیوں کو مسل کر نکلے
تھی کشش قوت قاتل میں بہت ہی فہمیؔ
ہم مگر پیروں تلے اس کو مسل کر نکلے