روز تارے شمار کون کرے

روز تارے شمار کون کرے
جیت کو اپنی ہار کون کرے


تجھ سے دھوکے ملے سدا ہم کو
تجھ پہ پھر اعتبار کون کرے


بھیڑیوں کا ہوا ہے یہ جنگل
بھیڑیوں کا شکار کون کرے


جو نہ آئے گا لوٹ کر واپس
اس کا دل انتظار کون کرے


سوچتی ہوں میں بے وفا کے لیے
ہائے دل بے قرار کون کرے


عشق کی اوج پر ہو بازی گری
فکر اب سر کی یار کون کرے


شور کرنے سے رزق ہو حاصل
خامشی اختیار کون کرے


ماسوا تیرے سسکیاں اے قلم
مجھ پہ اب آشکار کون کرے


بال ہو آئنے کی آنکھوں میں
پھر یہ فہمیؔ سنگار کون کرے