اس کے چہرے پر عجب سا روپ تھا اچھا لگا

اس کے چہرے پر عجب سا روپ تھا اچھا لگا
اس کی خوشبوئے بدن سے رابطہ اچھا لگا


لمس اس کے ہاتھ کا پھر ہے رگ و پے میں رواں
چند لمحوں کے ملن کو سوچنا اچھا لگا


میں نے پھر دل سے کہا اس شخص کی بیعت کرو
وہ جو ہر لمحہ مجھے اچھا لگا سچا لگا


اپنی تنہائی سے کیسی ہو گئی مانوس میں
آج اپنا خالی خالی گھر بڑا اچھا لگا


اس نے از راہ تکلف مجھ سے پوچھا حال دل
یہ اچانک ہونے والا واقعہ اچھا لگا


یہ جہاں یک لخت کتنا خوب صورت ہو گیا
تم بہت اچھی ہو جب اس نے کہا اچھا لگا


چپ کی چادر تان کر اہل قفس کے واسطے
سولیوں پر بولنے کا مشورہ اچھا لگا


جس گھڑی اس نے مجھے دیکھا نظر بھر کے کبھی
مجھ کو اپنا آپ بھی اس وقت کیا اچھا لگا


ڈرتے ڈرتے دوستوں کی بزم میں صغریٰؔ صدفؔ
ایک دوجے کو مسلسل دیکھنا اچھا لگا