اجنبی سے چہروں پر آشنا سی آنکھیں ہیں

اجنبی سے چہروں پر آشنا سی آنکھیں ہیں
آشنا سے چہروں پر کچھ خفا سی آنکھیں ہیں


زرد زرد موسم سے تشنگی جھلکتی ہے
پھول ہیں خزاؤں کے اور پیاسی آنکھیں ہیں


پالکی بہاروں کی آنے والی ہے شاید
نیم وا دریچوں میں آئنہ سی آنکھیں ہیں


پھر چلا ہے دل لے کر خواب ناک راہوں پر
میرے چار سو اب وہ رہنما سی آنکھیں ہیں


یاد کی حسیں کرنیں جگمگائیں آنگن میں
دل کا استعارہ تو وہ دعا سی آنکھیں ہیں


ہونٹ خشک ہیں میرے اور قدم صدفؔ زخمی
رات کا سفر ہے اور بے ضیا سی آنکھیں ہیں