رہ جاناں پہ بڑھتی جا رہی ہوں
رہ جاناں پہ بڑھتی جا رہی ہوں
مگر خود سے بچھڑتی جا رہی ہوں
انوکھے شہر مجھ پر وا ہوئے ہیں
کتاب ذات پڑھتی جا رہی ہوں
مرے مولا اسے آباد رکھنا
مرا کیا ہے اجڑتی جا رہی ہوں
مری نشو و نما جس سے ہوئی ہے
اسی جڑ سے اکھڑتی جا رہی ہوں
ہوا معلوم مجھ کو آخر شب
کہ میں بے سمت بڑھتی جا رہی ہوں
برا ہے وہ مگر اتنا نہیں ہے
یوں ہی اس سے بگڑتی جا رہی ہوں
کہاں لے جا رہا ہے مجھ کو صغریٰؔ
مقدر سے جھگڑتی جا رہی ہوں