ساتھ اپنے لوگ کچھ ایسے چلے
ساتھ اپنے لوگ کچھ ایسے چلے
دل کو اپنے لگ رہے تھے سب بھلے
نور آنکھوں میں ذہانت کا لیے
کوئی اب شفاف سوچوں میں ڈھلے
اب کہ لب پر ہے دعا اس کے لئے
میرے دل میں جس کا اک اک غم پلے
جب بھی گزروں زندگی کے کرب سے
شمع میرے ذہن میں تیری جلے
روشنی ہی زندگی ہے اے صدفؔ
دیکھنا مت سوچ کا سورج ڈھلے