اس کا آنا ثواب جیسا ہے
اس کا آنا ثواب جیسا ہے
اور جانا عذاب جیسا ہے
مجھ کو پڑھنے کا شوق بچپن سے
اس کا چہرہ کتاب جیسا ہے
ایک چہرہ نظر میں ہے میری
جو مرے انتخاب جیسا ہے
ایک نشہ سا ہے اس کی آنکھوں میں
ذائقہ بھی شراب جیسا ہے
مجھ کو مل جائے کوئی شہزادہ
وہ جو آنکھوں میں خواب جیسا ہے
ہوں گے مشہور نام سے اس کے
نام اس کا خطاب جیسا ہے
اس کو فرصت نہیں محبت کی
خیر چھوڑو جناب جیسا ہے
موت منظور اس کے ہاتھوں سے
اس کا خنجر گلاب جیسا ہے
قصۂ عشق نورؔ میرا بھی
لیلیٰ مجنوں کے باب جیسا ہے