جب سے تیرا نام لینے لگ گئے
جب سے تیرا نام لینے لگ گئے
ہر طرف یادوں کے خیمے لگ گئے
جب سے تصویریں ہٹائی ہیں تری
دل کی دیواروں پہ جالے لگ گئے
اس نے بھی گم نام خود کو کر لیا
ہم بھی خاموشی سے جینے لگ گئے
بانٹنے آئے ہو میرا درد اب
جب میرے زخموں پہ ٹانکے لگ گئے
کاش ملنے کا سبب کوئی بنے
راستے بھی ہاتھ ملنے لگ گئے
موت آسانی سے آئے گی نہیں
غم مجھے اندر سے کھانے لگ گئے
خواب آنکھوں کے منزہؔ سب مری
موت کا سامان ہونے لگ گئے