ان کی نگاہ ناز کا مستانہ ہو گیا

ان کی نگاہ ناز کا مستانہ ہو گیا
میں ہوش میں کچھ اور بھی دیوانہ ہو گیا


زاہد کا خوف اور نہ کچھ محتسب کا ڈر
اب تو مزاج شیخ بھی رندانہ ہو گیا


مرنے کے بعد کھل گئیں ساری حقیقتیں
جو زندگی میں راز تھا افسانہ ہو گیا


یادیں گئیں وہ شوق وہ ارمان لٹ گئے
آباد تھا جو دل کبھی ویرانہ ہو گیا


مجنوں کے بعد پوچھتا تھا کون نجد کو
آباد میرے دم سے یہ ویرانہ ہو گیا


اولاد نیک بخت کی اعظمؔ سے پوچھئے
جو اپنے گھر میں آپ ہی بیگانہ ہو گیا