ان کے ادنیٰ غلام ہو کر بھی

ان کے ادنیٰ غلام ہو کر بھی
ہم رہے خاص عام ہو کر بھی


بے وفائی نہ کی سمندر سے
موج نے بے لگام ہو کر بھی


دل کی دنیا نہ کر سکے روشن
آپ ماہ تمام ہو کر بھی


کیسے راون کا کام کر بیٹھے
نام کے آپ رام ہو کر بھی


ہم نہیں تیرے پیار کے لائق
قابل احترام ہو کر بھی


پیار کرنے کی بھول کر بیٹھا
شخص وہ نیک نام ہو کر بھی


پیاسی پیاسی ہی رہ گئی بادلؔ
زندگی نذر جام ہو کر بھی