میں اپنے اشک میں خود کو بھگو رہا ہوں ابھی

میں اپنے اشک میں خود کو بھگو رہا ہوں ابھی
خطا کو اشک ندامت سے دھو رہا ہوں ابھی


مجھے نہ چاہئے تکیہ کسی بھی تکیے کا
میں ماں کے ہاتھ پہ سر رکھ کے سو رہا ہوں ابھی


مرے مزاج سے نفرت رہی ہے سورج کو
میں ہم کلام جو جگنو سے ہو رہا ہوں ابھی


کسی بھی حال میں سودا ضمیر کا نہ کرو
میں ارض نو میں یہی بیج بو رہا ہوں ابھی


نکل پڑا ہوں میں خود کو تلاش کرنے کو
میں اپنے آپ میں خود کو ہی کھو رہا ہوں ابھی


ملے جو بار قضا کے تو میں اٹھا بھی سکوں
تبھی حیات کے ہر بوجھ ڈھو رہا ہوں ابھی


میں بارشوں میں کبھی دھوپ کی حرارت میں
گھروندا غور سے دیکھا تو رو رہا ہوں ابھی