عزت مجھے ملی ہے بہت التجا کے بعد
عزت مجھے ملی ہے بہت التجا کے بعد
در پہ گیا نہ غیر کے رب کی عطا کے بعد
اچھا ہوا کہ آرزو پوری نہیں ہوئی
نکھری ہماری خواہشیں اپنی قضا کے بعد
کرنے لگیں گے راہ میں جگنو بھی روشنی
سورج جو ڈوب جائے گا ختم ضیا کے بعد
ہر بے وفا نے آشیاں اپنا بدل دیا
تنہا رہا ہوں شہر میں ذکر وفا کے بعد
پانی پہ میں نے مار کے پتھر سمجھ لیا
ڈوبیں گے اہل ظلم بھی جور و جفا کے بعد
ہوں گے ہزار قسم کے انجم تو کیا ہوا
تب بھی فلک نہ چاہئے ماں کی ردا کے بعد
عرفانؔ وہ تو خلد میں کرنے لگے سفر
مسجد کی اور آئے جو فرش عزا کے بعد