ہمارے گاؤں کی باتیں نرالی ہی نرالی ہیں

ہمارے گاؤں کی باتیں نرالی ہی نرالی ہیں
کہیں ٹکر نہیں اس کا سکونت میں سہولت میں


نہ سر پہ چھت کا سایہ ہے نہ کھانے کو کوئی روٹی
کوئی انساں نہیں دکھتا حقیقت میں فضیلت میں


ہوئے ہیں فیصلے جھوٹے رہے وعدے ادھورے سے
بہت بدلاؤ دیکھا ہے عدالت میں سیاست میں


فقط دو وقت ہے ایسا جہاں ماں رو کے کہتی ہے
مرا بیٹا رہے محفوظ ہجرت میں مصیبت میں


کبھی مزدور سے پوچھو تمہارا حال کیسا ہے
کہے گا رہ گیا ہوں بس تھکاوٹ میں تو غربت میں


بدن پر قیمتی کپڑے سواری بادشاہوں سی
بہت مغرور صاحب ہیں ریاست میں حکومت میں


شرابی کو کہو مومن صحابی کو کہو کافر
نہیں ہے فرق کوئی کیا نجاست میں طہارت میں


مرے والد کی کمزوری بتاتی اک حقیقت ہے
گزر جاتی ہے ساری عمر محنت میں مشقت میں


جسے اپنے برادر کی خبر گیری نہیں آتی
نہ لکھنا نام ان کا رب اخوت میں عطوفت میں


ابھی تو مافیاؤں کے مظالم ہی برستے تھے
حکومت کیوں معاون بن گئی وحشت میں دہشت میں


کوئی ثانی نہیں عرفانؔ کے حیدر کا دنیا میں
فصاحت میں بلاغت میں کتابت میں خطابت میں