عمر بھر چلتا رہوں یہ حادثہ رہنے دیا
عمر بھر چلتا رہوں یہ حادثہ رہنے دیا
اس نے منزل چھین لی اور راستہ رہنے دیا
اس طرح اس نے کیا بیماریٔ غم کا علاج
اچھا ہونے پر بھی محتاج دوا رہنے دیا
جب گئے تھے میری راہوں میں جلا کر تم چراغ
آندھیوں کو کس لئے مجھ سے خفا رہنے دیا
چاہے جھوٹا ہی سہی اس نے دلاسہ تو دیا
کم سے کم جینے کا میرے سلسلہ رہنے دیا
تھا حقیقت پر فدا سونے سے بھی ڈرتا رہا
عمر بھر آنکھوں کو خوابوں سے جدا رہنے دیا
یوں کیا مجھ پر ستم آخر تیری پہچان نے
میری ہی پہچان کو مجھ سے جدا رہنے دیا
خود سے جب انداز ملنے کا نہیں تھا حوصلہ
آئنہ چہرے کے آگے کیوں رکھا رہنے دیا