جسے بھی دیکھیے ساحل سے آ کے پیار کرے
جسے بھی دیکھیے ساحل سے آ کے پیار کرے
سوال یہ ہے کہ دریا کو کون پار کرے
وہ آ بھی جائے تو رہتا ہے انتظار اس کا
اب ایسے شخص کا کیا کوئی انتظار کرے
جو جانتے ہی نہیں اک قطار میں اڑنا
نگاہ ایسے پرندوں کو کیا شمار کرے
لباس جس کا ہے اجلا فقط مرے دم سے
مری قمیص کے دھبے کو وہ شمار کرے
وہیں اٹھائی ہے انداز نے نظر اپنی
نظارہ خود کو نظر پر جہاں نثار کرے