اڑا غبار ہواؤں کی انجمن میں ہے
اڑا غبار ہواؤں کی انجمن میں ہے
دھواں دھواں سا فضاؤں کی انجمن میں ہے
نگاہ منظر دل کش میں چھا گئی سرخی
مئے خمار صداؤں کی انجمن میں ہے
لباس پوش کی خواہش میں لگ گیا ہے زنگ
شکستہ داغ قباؤں کی انجمن میں ہے
تم اس سے دور رہو نیند اڑ نہ جائے کہیں
تھکن خمیدہ رداؤں کی انجمن میں ہے
نظام وقت کا اب خوں نچوڑنا ہوگا
کہ سنگ سخت اداؤں کی انجمن میں ہے
درندے کرب کے منڈلا رہے ہیں اس کے گرد
یہ کون خفتہ بلاؤں کی انجمن میں ہے
بشر کی زیست ملوث ہے راکھ سے قدسیؔ
سلگتی آگ وفاؤں کی انجمن میں ہے