کہتا ہے کون سنگ و شجر بولتے نہیں

کہتا ہے کون سنگ و شجر بولتے نہیں
وہ بولتے ہیں جب تو بشر بولتے نہیں


تعمیل حکم رب میں ہیں مصروف رات دن
اس واسطے یہ شمس و قمر بولتے نہیں


گاؤں کے ذرے ذرے میں ہے شور و غل مگر
بازار چپ ہے اور نگر بولتے نہیں


پل پل کی ہے خبر انہیں پھر بھی نہ جانے کیوں
دیوار بے زبان ہے در بولتے نہیں


پڑھتے رہے درود ہے دشت عرب گواہ
یہ بات ہے غلط کہ حجر بولتے نہیں


بے جان سے بھی ہوتے ہیں وہ محو گفتگو
کیا جانے مجھ سے کیوں وہ مگر بولتے نہیں


قطروں کو روز دیتے ہیں یہ درس اجتہاد
پھر کیسے مان لوں کہ گہر بولتے نہیں