شاخ جذبات پہ نغمات کا منظر خاموش
شاخ جذبات پہ نغمات کا منظر خاموش
غم کی آغوش میں ارماں کا کبوتر خاموش
نیند روتی رہی سنسان کھنڈر میں چھپ کر
قصر شاہی کا حسیں مخملیں بستر خاموش
سرخ آندھی چلی اس بار ہلاکت کی عجب
غرق امواج ہوئیں اور سمندر خاموش
سکہ بیٹھا تھا اس انساں کی وفا کا ایسا
شرک بے ہوش تھا اور ظلم کا لشکر خاموش
فائلیں درد کی بکھری تھیں بھرے چہرے میں
اور آنکھوں میں مری اشک کا دفتر خاموش
بہتے جاتے ہیں یہاں چاروں طرف لاف و گزاف
فن کے میدان میں پاکیزہ سخنور خاموش
قدسیؔ بازیچۂ اطفال تھیں آہیں میری
اور تھا دہر تماشائی مقدر خاموش