زیست میری عذاب ہو جیسے
زیست میری عذاب ہو جیسے
موت دل کش گلاب ہو جیسے
مثل اوراق ہیں سبھی انساں
اور دنیا کتاب ہو جیسے
شوق سے کھا رہے ہیں سب حیواں
ایک مردہ کباب ہو جیسے
آنکھ دھرتی کی سرخ ہونے لگی
نور انجم شراب ہو جیسے
کب سے شعلوں پہ سو رہا تھا مگر
اب بھی وہ نیم خواب ہو جیسے
پنکھڑی پھول کی ہے پژمردہ
باد زیر عتاب ہو جیسے
مل نہیں سکتی تم کو سیرابی
ابر قدسیؔ سراب ہو جیسے