اس دور میں جسموں کے خریدار بہت ہیں

اس دور میں جسموں کے خریدار بہت ہیں
ہر سمت گناہوں کے بھی بازار بہت ہیں


بالیدگیاں روح ادب میں تو سمیٹو
اسلاف کے اس ہند میں آثار بہت ہیں


تحقیق تمہاری یہ ادھوری ہی رہے گی
قدرت کے جہاں میں ابھی اسرار بہت ہیں


تم شوق سے شہروں کے اجالوں سے ہو محظوظ
میرے لئے پاتال ضیا بار بہت ہیں


گلزار روایت سے ذرا ذہن کو موڑو
جدت کے بیابان میں اشجار بہت ہیں


سب پر گل رعنا کی تو ہوتی ہے نوازش
کیا میرے مقدر کے لئے خار بہت ہیں


قدسیؔ تو اکیلا نہیں میدان سخن میں
ہر کوچہ و بازار میں فنکار بہت ہیں