طوفاں بدل گئے کبھی دھارے بدل گئے

طوفاں بدل گئے کبھی دھارے بدل گئے
موجوں کے ساتھ ساتھ کنارے بدل گئے


غم ہائے زندگی کے سہارے بدل گئے
مستی بھری نظر کے اشارے بدل گئے


طاری فضائے کیف پہ بے کیفیاں سی تھیں
اٹھی جو وہ نظر تو نظارے بدل گئے


اس واردات خاص کا کس سے کروں گلہ
بدلے ہیں جب سے آپ ستارے بدل گئے


ٹھنڈی ہوئی نہ اشک رواں سے بھی غم کی آگ
آنسو بدل گئے کہ شرارے بدل گئے


سنتے ہی روشنیؔ کی غزل لوگ کہہ اٹھے
غم ہائے زندگی کے نظارے بدل گئے