کہتے نہیں ہیں حال کسی راز داں سے ہم

کہتے نہیں ہیں حال کسی راز داں سے ہم
واقف ہوئے ہیں جب سے فریب جہاں سے ہم


آئے گی پھر نہ صحن‌ چمن میں کبھی بہار
اٹھ کر چلے گئے جو کہیں گلستاں سے ہم


منزل تمام عمر ہمیں ڈھونڈھتی رہی
شاید بچھڑ گئے تھے رہ کارواں سے ہم


گردش نے جس کی ہم کو فسانہ بنا دیا
ٹکرائے بار بار اسی آسماں سے ہم


پائی دل و نگاہ نے اس جا سے روشنیؔ
سر کس طرح اٹھائیں ترے آستاں سے ہم