افسانۂ حیات کو دہرا رہے ہیں ہم
افسانۂ حیات کو دہرا رہے ہیں ہم
اپنے کئے کی آپ سزا پا رہے ہیں ہم
اے چشم یار تیری نگاہوں کا شکریہ
اب زندگی و موت کو بہلا رہے ہیں ہم
چھیڑا تھا ہم نے ذکر کسی بزم ناز کا
کہنے لگے وہ ہنس کے چلو آ رہے ہیں ہم
یہ رہ گزر ہے کون سی کچھ سوجھتا نہیں
اے بے خودی بتا کہ کہاں جا رہے ہیں ہم
چھیڑا جو ہم نے راہ میں زاہد نے یہ کہا
پھر آج میکدے کی طرف جا رہے ہیں ہم
تاریک رہ گزر نے بڑے فخر سے کہا
اب روشنیؔ کے گیت غزل گا رہے ہیں ہم