تو ساتھ ہو تو لگتا ہے محشر ہے ساتھ ساتھ

تو ساتھ ہو تو لگتا ہے محشر ہے ساتھ ساتھ
تیرا وجود جیسے سمندر ہے ساتھ ساتھ


تقسیم کیجئے نہ مذاہب میں فرد کو
مسجد کے ساتھ دیکھیے مندر ہے ساتھ ساتھ


مرکز تو پہلے روز سے ہی میرے ساتھ تھا
اس عشق کے وجود کا محور ہے ساتھ ساتھ


تنہائی میں بھی سچ کہوں تنہا نہیں رہا
اس شاعری کے صدقے میں شاعر ہے ساتھ ساتھ


میرا یقین قد سے مرے ہے بلند تر
گہرے سمندروں میں مقدر ہے ساتھ ساتھ


حد نگاہ تک مری قبروں کا شہر ہے
ہر اک قدم پہ میرے مجاور ہے ساتھ ساتھ


یہ سلسلہ ہے سارے کا سارا یزید کا
نسل یزید آج بھی صفدرؔ ہے ساتھ ساتھ