تو نے کمال کام یہ نادان کر دیا
تو نے کمال کام یہ نادان کر دیا
گھر میں مجھے خود اپنا ہی مہمان کر دیا
بس اک ذرا سی بھول ہوئی اختلاف کی
بے دخل کر کے تخت سے دربان کر دیا
اے بد نصیب میرا یقیں مجھ سے چھین کر
تجھ کو یہ زعم ہے مرا نقصان کر دیا
بزدل تھا میں جو کر نہ سکا خود یہ انتظام
صد شکر تم نے موت کا سامان کر دیا
ہائے لگا کے آگ چراغاں کے شوق میں
حاکم نے سارے شہر کو ویران کر دیا
قد سے مرا سوال بڑا تھا سو اس لیے
محسن کو اپنے داخل زندان کر دیا
خیرات دے کے گزرا ہے جو میرے پاس سے
اس نے کبھی مجھے بھی تھا بھگوان کر دیا
یوں تو میں محتسب رہا اپنا تمام عمر
تم نے مگر بتا کے یہ حیران کر دیا
صفدرؔ قنوطیت کا یہ اعزاز جو ملا
اعزاز دینے والے نے احسان کر دیا