لے تری آواز کو قید سماعت کر لیا
لے تری آواز کو قید سماعت کر لیا
ہاں غزل کے روپ کو عکس طباعت کر لیا
بھیگتی اس شام میں اس نے پکارا ہے مجھے
لگ رہا ہے جس طرح حج محبت کر لیا
سوچتا ہوں اس سے پوچھوں جان صفدرؔ کس لئے
عام سے اک آدمی کو اپنی عادت کر لیا
آج پھر شانوں پہ بکھری زلف ہے اللہ خیر
لگ رہا ہے آج پھر عہد بغاوت کر لیا
رات دن رہتا ہے اس کو اپنی چاہت کا خیال
اس نے خود کو اس طرح وقف عبادت کر لیا
کر لیا ہے شب کی تنہائی میں ملنے کا خیال
مسکراہٹ کو تری رد عداوت کر لیا
اس کتاب عشق کی تکمیل صفدرؔ ہو گئی
اس نے برسوں بعد اظہار محبت کر لیا