نہاں ہو کے بھی میں ظاہر رہوں گا

نہاں ہو کے بھی میں ظاہر رہوں گا
تری ہر سوچ کا محور رہوں گا


میں اب محصور کر ڈالوں گا خود کو
مثال خانۂ بے در رہوں گا


تمہارے ساتھ اب رہنا ہے مشکل
میں اپنی ذات کے اندر رہوں گا


بچھڑ کے بھی رہیں گے ساتھ دونوں
تو میرا میں ترا پیکر رہوں گا


مجھے بے بال و پر گرداننا مت
میں تنہا ہی سہی لشکر رہوں گا


ستارہ اب کوئی آنگن میں اترے
اسی امید پر اب گھر رہوں گا


زمانہ جو بھی چاہے نام دے دے
میں صفدرؔ ہوں میں بس صفدرؔ رہوں گا