جدھر بھی دیکھیں وہی رویے منافقوں کے

جدھر بھی دیکھیں وہی رویے منافقوں کے
سمجھ میں دکھ ہم کو آ رہے ہیں پیمبروں کے


کھلی ہوئی ہیں جو کھڑکیاں وہ بھی ادھ کھلی ہیں
نہ جانے کب سے ہیں در مقفل یہاں گھروں کے


انا مری ہے ابھی بھی ہر مصلحت پہ حاوی
لہو میں اترے ہیں تجربے سب مسافتوں کے


ناآشنا ہے ہر ایک شاخ شجر ثمر سے
درخت سارے ڈسے ہوئے ہیں یہ بارشوں کے


عجب تغیر پسند اس کی ہوئی ہے عادت
بدلتے رہتے ہیں روز معیار چاہتوں کے


اگی ہے فصل نجات جیسے خزاں میں صفدرؔ
یوں سر بریدہ بدن پڑے ہیں مسافروں کے