جی رہا ہوں وسوسوں کے درمیاں
جی رہا ہوں وسوسوں کے درمیاں
دم کشیدہ ساعتوں کے درمیاں
با عمل دیکھے ہیں کتنے تنگ دست
بے عمل ان واعظوں کے درمیاں
بے ثمر ہی اب شجر کمہلائے گا
شک اگا ہے چاہتوں کے درمیاں
میں نے حکمت سے نکالا ہے جناب
ایک رستہ راستوں کے درمیاں
مجھ کو دیتی ہے صدائیں رات دن
ایک وحشت ساحلوں کے درمیاں
داد میرے حوصلے کی دیجئے
رہ رہا ہوں کوفیوں کے درمیاں
دوستوں کے ساتھ صفدرؔ اس طرح
جیسے کافر مومنوں کے درمیاں