سب درخت خالی ہیں بارشوں کے موسم میں

سب درخت خالی ہیں بارشوں کے موسم میں
سارے گھر مقفل ہیں وسوسوں کے موسم میں


آندھیوں کی بارش میں سب چراغ زندہ ہیں
جاگتا ہے یزداں بھی رت جگوں کے موسم میں


آپ سے شکایت کیا آپ سے گلہ کیسا
پھر رہا ہوں خود تنہا سازشوں کے موسم میں


جاگتے درختوں کی شاخ شاخ خالی ہے
کوئی پھل اگے گا تو خواہشوں کے موسم میں


ابر کا کوئی ٹکڑا شہر بھر سوالی ہے
آنکھ خشک دریا ہے آنسوؤں کے موسم میں


بس اسی تجسس میں رات کا سفر گزرا
کون ہے جو روتا ہے چاہتوں کے موسم میں


اک سکوت طاری ہے ہر صدا کے چہرے پر
پا برہنہ لمحے ہیں ساعتوں کے موسم میں