تمہاری یاد میں کچھ یوں نئے موسم بناتا ہوں

تمہاری یاد میں کچھ یوں نئے موسم بناتا ہوں
میں صحرائے جنوں میں ریت سے شبنم بناتا ہوں


وہ مجھ کو زخم دینے کے لیے خنجر بناتے ہیں
میں ان کو ٹھیک کرنے کے لیے مرہم بناتا ہوں


تری صورت نگاہ و ذہن میں چھائی ہوئی ہے یار
میں صبح و شام تصویروں کا اک البم بناتا ہوں


میں خود کو ریشہ ریشہ فکر و فن سے اوڑھ لیتا ہوں
غزل کے شعر کی ترکیب میں ریشم بناتا ہوں


یہ حرف و صوت کی جادوگری یوں ہی نہیں آتی
میں خود کو صرف کر کے نغمہ ہائے غم بناتا ہوں