تم سے ملتجی ہو کر کیا بتائیں کیا پایا
تم سے ملتجی ہو کر کیا بتائیں کیا پایا
دل کے مدعی تھے ہم دل کا مدعا پایا
ابتدائے عالم سے انتہائے عالم تک
تم کو ابتدا دیکھا تم کو انتہا پایا
سادگیٔ دل دیکھو اعتبار کر بیٹھے
ہو گئے اسی کے ہم جس کو آشنا پایا
ہم سے پوچھتے کیا ہو اپنے دل سے خود پوچھو
ہم نے تم سے کیا پایا تم نے ہم سے کیا پایا
آنکھ کھولتے ہی کیوں اس قدر مسرت ہے
صبح دم منورؔ کیا تم نے کچھ پڑا پایا