آگہی

نصف النہار سے میری سوچوں کا آفتاب
رکھتا ہے لیر لیر میری زیست کی کتاب
مجھ میں ادھر بچھا کے یہ دریا یقین کے
ٹھوکر ادھر لگا کے دکھا کے مجھے سراب
اے الاماں یہ بھڑکی ہوئی آگہی کی پیاس
دشت جنوں میں چیخ رہی ہوں میں آب آب