تم ہمارے نہیں تو کیا غم ہے
تم ہمارے نہیں تو کیا غم ہے
ہم تمہارے تو ہیں یہ کیا کم ہے
بال بکھرے ہیں آنکھ پر نم ہے
مر گیا کون کس کا ماتم ہے
حسن کی شوخیاں ذرا دیکھو
گاہ شعلہ ہے گاہ شبنم ہے
مسکرا دو ذرا خدا کے لئے
شمع محفل میں روشنی کم ہے
چھا رہی ہیں گھٹائیں ساون کی
زلف گردوں بھی آج برہم ہے
بن گیا ہے یہ زندگی اب تو
تجھ سے بڑھ کر ہمیں ترا غم ہے
چاک دامن ہے کس لیے گل کا
کس لئے اشک ریز شبنم ہے
محفل رقص ہو کہ شعر و شراب
تم نہیں ہو تو بزم ماتم ہے
ہر مسرت الم کا ہے پرتو
جو خوشی ہے امانت غم ہے
اس میں آنسو بھی ہیں تبسم بھی
زندگی اک تضاد پیہم ہے
شیخ صاحب جراحت دل کا
آپ کے پاس کوئی مرہم ہے
اس کو سجدے کئے فرشتوں نے
آدمی ہے یہ ابن آدم ہے