طلوع صبح سفر کی گھڑی تھی یاد آیا
طلوع صبح سفر کی گھڑی تھی یاد آیا
جدائی راستہ روکے کھڑی تھی یاد آیا
کسی کی خندہ لبی سے بھی کھل نہیں پائی
گرہ تو اب کے دلوں میں پڑی تھی یاد آیا
یہ دل کے زخم اسی جنگ میں عطا ہوئے ہیں
جو تیرے نام پہ خود سے لڑی تھی یاد آیا
جو میرا وقت مرے ہاتھ آ نہیں رہا تھا
مری کلائی پہ تیری گھڑی تھی یاد آیا
گلے ملے تھے بچھڑتے سمے جب آخری بار
وہ شام دونوں پہ کتنی کڑی تھی یاد آیا
رگیں بدن کی یوں ہی تو نہیں کھنچی ہوئی تھیں
کوئی صلیب سی دل میں گڑی تھی یاد آیا
ہوئی ہے صرف نہ جانے کہاں کہاں اے نعیمؔ
درون چشم نمی تو بڑی تھی یاد آیا