ٹکڑوں میں ملک جب بھی بٹتا ہے

ٹکڑوں میں ملک جب بھی بٹتا ہے
جسم کا کوئی حصہ کٹتا ہے


تیرا میرا جب آئے رشتوں میں
پھر کئی حصوں میں گھر بٹتا ہے


روز یوں جنگلوں کو کٹتا دیکھ
دھرتی کا بھی کلیجہ پھٹتا ہے


حوصلے اور جنوں کی دھار سے تو
پروتوں کا بھی سینا کٹتا ہے


یاد رہتی ہے جانے والے کی
لیکن اس کا اثر تو گھٹتا ہے


بات جب جان پر آ جاتی ہے
کون ہے پھر جو پیچھے ہٹتا ہے