کبھی اس پر یوں بھی میرا اثر جائے
کبھی اس پر یوں بھی میرا اثر جائے
گلی سے میری گزرے تو ٹھہر جائے
وہ بھی گر بے دلی سے ٹھکرا دے مجھ کو
تو پھر یہ دل کسے چاہے کدھر جائے
نہیں چاہت مجھے اب گھر سجانے کی
جی تو کرتا ہے اب سب کچھ بکھر جائے
گزرتی ہے قیامت میرے اس دل پر
کبھی جو سامنے سے وہ گزر جائے
ہے جادو انگلیوں میں اس قدر اس کی
کہ جس کو پیار سے چھو لے نکھر جائے
یہی اک التجا ہے چاند سے میری
کبھی آنگن میں اترے تو ٹھہر جائے
کہو ستیارتھؔ کچھ یوں بات تم اپنی
کہ ہر اک شخص پر اس کا اثر جائے