مرے دونو جہاں تم شاد کرتی ہو
مرے دونو جہاں تم شاد کرتی ہو
یوں اپنی زلف جب آزاد کرتی ہو
حیا سے جب جھکاتی ہو نظر اپنی
ہزاروں خواہشیں آباد کرتی ہو
شجر غم زاد ہے اک میرے آنگن میں
اسے تم مسکرا کر شاد کرتی ہو
ستانے اور پھر مجھ کو منانے کے
طریقے تم نئے ایجاد کرتی ہو
تمہیں میں بھیڑ میں بھی یاد کرتا ہوں
ہو تنہا بھی تو تم کب یاد کرتی ہو
مجھے غیروں میں ہی اکثر گنا تم نے
تو پھر کس حق سے اب فریاد کرتی ہو